You can find or join us on :
سلسلہ
اس سے مراد صحبت اور اعتماد کا وہ سلسلہ ہے جو موجودہ شیخ سے آنحضرت ﷺ تک جاتا ہے ۔ہند میں چار بڑے سلاسل چل رہے ہیں ۔جو کہ چشتیہ، نقشبندیہ، قادریہ اور سہروردیہ ہیں۔ جس شیخ سے آدمی بیعت ہوتا ہے تو اس کے ساتھ آدمی اس کے سلسلے میں داخل ہوجاتا ہے۔ ان سلاسل کی مثال فقہ کے چار طریقوں حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی یا طب کے مختلف طریقوں یعنی ایلوپیتھی، ہومیوپیتھی، آکوپنکچر اور یونانی حکمت وغیرہ سے دی جاتی ہے۔ ان کے اصولوں میں تھوڑا تھوڑا فرق ہے لیکن سب کا نتیجہ وہی روحانی صحت یعنی نسبت کا حاصل کرنا ہے۔
چاروں سلسلوں کے مشائخ کے اسمائے گرامی
سلسلہ چشتیہ کے سرخیل حضرت خواجہ معین الدین چشتی (رحمۃ اللہ علیہ) ہیں۔ ان کے آگے پھر دو شاخ ہیں چشتیہ صابریہ کے سرخیل حضرت صابر کلیری (رحمۃ اللہ علیہ) ہیں اور چشتیہ نظامیہ کے سرخیل حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء (رحمۃ اللہ علیہ) ہیں، سلسلہ قادریہ کے سرخیل حضرت شیخ عبد القادر جیلانی (رحمۃ اللہ علیہ)، سلسلہ سہروردیہ کے حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی (رحمۃ اللہ علیہ) اور سلسلہ نقشبندیہ کے حضرت شیخ بہاؤالدین نقشبندی (رحمۃ اللہ علیہ) ہیں۔
شجرہ اور اس کی اہمیت
آپ ﷺکے مناسب جو اللہ تعالیٰ نے قُرآن میں بیان فرمائے ہیں چار ہیں۔ یعنی قُرآن کی تلاوت سکھانا، صحابہ کرام (رضی اللہ عنہ) کا تزکیہ کرنا، کتاب کی تعلیم دینا اور حکمت کی تعلیم دینا۔ قُرآن کی تلاوت کے شعبے کی ذمہ داری قرّاء حضرات نے، تزکیہ کی صوفیاء کرام نے اور علم و حکمت کی علماء کرام نے۔ علماء کرام میں محدثین کرام نے احادیث شریفہ کو اُمت تک محفوظ طریقے سے پہنچانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ اس مقصد کے لئے وہ اپنی سندوں کی حفاظت کرتے ہیں اور اپنی سندوں کو اس ترتیب سے روایت کرتے ہیں جس ترتیب سے ان تک روایت پہنچی ہوتی ہے۔ بعینہ اسی طرح صوفیاء کرام اپنی نسبت کو اسی ترتیب سے بیان کرتے ہیں جس ترتیب سے ان تک نسبت پہنچی ہوتی ہے۔ نسبت کی اسی ترتیب کا بیان شجرہ کہلاتا ہے۔ بعض حضرات نے اپنا شجرہ منظوم انداز میں چھاپا ہوتا ہے اور برکت کو حاصل کرنے کے لئے اس کو پڑھتے ہیں۔ یہ دعائیہ شکل میں بھی ہوتی ہے اور مریدین اپنی دعا کی قبولیت کے لئے اس نسبت کو بطور وسیلہ پکڑتے ہیں۔ ہمارا شجرہ یہ ہے۔
ہمارے پیر و مرشد کی نسبت
ہمارے پیر و مرشد عارف باللّٰہ حضرت سید شبیر احمد کاکاخیل دامت برکاتھم کو حضرت صوفی محمد اقبال مدنی (رحمۃ اللہ علیہ) سے بواسطہ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمدزکریا (رحمۃ اللہ علیہ) چاروں سلسلوں میں اور ان ہی سے بواسطہ حضرت مولانا ابوالحسن ندوی (رحمۃ اللہ علیہ) طریقہ قادریہ راشدیہ میں اور بواسطہ حضرت علی مرتضےٰ (رحمۃ اللہ علیہ) کے سلسلہ نقشبندیہ میں، حضرت سید تنظیم الحق حلیمی (رحمۃ اللہ علیہ) سے بواسطہ حضرت مولانا فقیر محمد (رحمۃ اللہ علیہ) کے چاروں سلسلوں میں اور ان ہی سے بواسطہ حضرت سیف الرحمٰن گل بادشاہ المعروف میخ بند باباجی (رحمۃ اللہ علیہ) سلسلہ قادریہ، نقشبندیہ، معصومیہ مجددیہ میں اور حضرت ڈاکٹر فدا محمد صاحب مدظلہ سے بواسطہ حضرت مولانا محمد اشرف سلیمانی (رحمۃ اللہ علیہ) چاروں سلسلوں میں اجازت حاصل ہے۔
مختصر حالاتِ زندگی
ہمارے پیر و مرشد عارف باللہ حضرت سید شبیر احمد کاکاخیل دامت برکاتھم کی ولادت ۲۴ جون ، ۱۹۵۴ کو پاکستان کے صوبہ خیبر پختون خواہ کے ضلع صوابی کے ایک گاؤں جہانگیرہ میں ہوئی ۔ آپ حضرت کا تعلق ” سادات” گھرانے سے ہے اور نوشہرہ کے مشہور اور قابلِ قدر گاؤں ” زیارت کاکاصاحب ” سے تعلق رکھتے ہیں ۔کاکاخیل خاندان کی نسل قطب الاقطاب حضرت شیخ رحمکار کاکاصاحب رحمتہ اللہ علیہ سے پھیلی جو نسباً حسینی سادات میں سے تھے ۔ آپ بہت دیندار تھے اور بساط قرب پر متمکن تھے، اُن میں کبرو غرور کا دور دور شائبہ نہ تھا۔ قلب سلیم کے مالک تھے معرفت اپنے سینے میں کمال درجے کی رکھتے تھے، وہ صاحب جذب و کشش تھے، محقق اور سراپا محبت تھے، اتباعِ شریعت میں کمال کا درجہ حاصل تھا، طریقت و حقیقت میں تام تھےاور شوق و اشتیاق میں ہر وقت روبہ ترقی رہتے تھے، آپ کا دل توکل سے مملوتھا ، اپنے زمانے میں باادب مقتدا اور پیشوا تھے۔خود بھی کامل تھے، اور دوسروں کو بھی کامل بنانے کاسلیقہ رکھتے تھے۔ حبِ الہٰی کی شراب سے سرشار تھے، علم لدنی کے عالم اور راہ حقیقت کے کامل تھے۔
کاکاخیل خاندان کے نامی گرامی بزرگ حضرت سید تسنیم الحق کاکاخیل رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت سید تنظیم الحق کاکاخیل رحمتہ اللہ علیہ ہمارے پیر و مرشد کے پھوپھا تھے اور دونوں حضرات آپ حضرت سے نہایت محبت اور شفقت رکھتے تھے ۔
سادات کاکاخیل کے پاس نسبی شجرہ علاقائی ناموں پر مشتمل اور اصلی ( عربی ناموں پر مشتمل ) دونوں ہی محفوظ ہے ۔
ہمارے پیر و مرشد نے میکینیکل انجینئر نگ کی ڈگری انجینئرنگ یونیورسٹی پشاور سے اور نیوکلیئر انجنیئرنگ میں ایم ایس قائد اعظم اسلام آباد یونیورسٹی سے حاصل کی نیز جرمنی میں اعلی تحقیق پر کام کیا ۔ آپ حضرت نے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ اپلائیڈ سائنسز ( پیاس) میں بھی پوسٹ گریجوئیٹ طلباء کو نیوکلیئر انجینئرنگ پڑھائی اورپاکستان اٹامک انرجی کمیشن سے ڈپٹی چیف انجینئر کے عہدے پر ریٹائر ہوئےآپ حضرت رویت ہلال کمیٹی کے بھی ممبر رہے ہیں ۔مختلف مدارس ” فلکیات ” اور ” وراثت” جدید تحقیق کے مطابق پڑھائی اور ان فنون پر کتابیں لکھیں اس کے علاوہ تصوف اور شاعری پر بھی آپ حضرت کی تصنیفات موجود ہیں ۔ آپ حضرت راولپنڈی شہر میں رہائش پزیر ہیں ۔
تصوف پر شائع شدہ کتب